Waseem khan

Add To collaction

01-May-2022 لیکھنی کی کہانی ۔ آں چست از روز میری قسط 7

آں چست
از روز میری 
قسط نمبر7


"مشی"۔    مشائم اپنا پیر پکڑے سیڑھیوں سے نیچے فرش پہ بیٹھی تھی' احد برق رفتاری سے سیڑھیاں اترتے اسکے قریب آیا۔ 
"کیا ہوا مشی؟؟"۔    مشائم کے قریب پنجوں کے بل بیٹھتے احد نے بے چینی سے کہا۔
"احد میرا پاوں پتہ نہیں کیا ہوا؟ میں گر گئی' بہت تکلیف ہو رہی ہے"۔   درد کی زیادتی پہ مشائم کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے تھے۔
"مشائم بیٹا تم ٹھیک ہو؟ کیا ہوا ہے؟"۔   راضیہ بیگم بھی روم سے نکلتی اس طرف آئیں۔
"ماما مشائم سیڑھیوں سے گر گئی ہے' چلو مشی میں تمھیں ڈاکٹر کے پاس لے جاتا ہوں"۔    راضیہ بیگم کے بعد اسنے مشائم کو مخاطب کیا۔
مشائم نے ابتر حالت میں اٹھنے کی ناکام کاوش کی۔
"احد بہت درد ہو رہا ہے"۔    مشائم کی آنکھیں مسلسل رو رہیں تھیں۔
مجبورا احد نے اسے بانہوں میں لیا اور انٹرنس کی جانب بڑھا۔
"دھیان سے جانا احد' اللہ خیر رکھے"۔   راضیہ بیگم نے اسے جاتے جاتے تنبیہ کی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
"میں نے انہیں پلستر لگا دیا ہے' ٹھیک ہونے میں کم از کم ایک ماہ لگے گا باقی آپ انہیں میڈیسنز دیں۔ ایک ماہ بعد ہی بتا سکتا ہوں کہ کیا صورت حال ہے"۔   ڈاکٹر نے احد کو مطلع کرتے پریسکریپشن احد کو تھمائی۔
"لیکن ڈاکٹر صاحب گھبرانے والی بات تو نہیں ہے؟"۔   احد نے مضطرب دل سے کہا۔
"دیکھئے مسٹر احد میں آپ سے جھوٹ نہیں بولوں گا' مس مشائم کے پیر کی ہڈی ٹوٹی ہے کوئی معمولی فریکچر نہیں ہے۔ ابھی تو صرف ایک ماہ کا کہا ہے دو ماہ بھی لگ سکتے ہیں"۔    ڈاکٹر نے تفصیل دی۔
"مگر ڈاکٹر صاحب مشائم پہلے جیسی تو ہو جائے گی نا؟"۔    احد کی بے چینی بالمضاعف بڑھی تھی۔
"ایسے کیسز تو روزمرہ کی زندگی میں کافی سارے ڈیل کرنے کو ملے ہیں اور ان سب پر مثبت اثر رہا ہے' میں پرامید ہوں انشاءاللہ اس کیس میں بھی ایسا ہی ہوگا"۔   ڈاکٹر نے دلاسہ دیتے یقین دہانی کرائی۔
"انشاءاللہ ڈاکٹر"۔    
"کم ان"۔     دروازے پہ ناک ہوا تو ڈاکٹر نے آواز بلند کی۔
ایک نرس مشائم کے ہمراہ کیبن میں داخل ہوئی۔ مشائم جو ویل چیئر پہ بیٹھی تھی' افسردگی سے احد کو دیکھ رہی تھی۔
"تھینک یو سو مچ ڈاکٹر' ٹھیک ہے اب ہم چلتے ہیں"۔    اجازت طلب کرتے احد چیئر سے اٹھا۔
"چلیں مشی"۔    مشائم کے اترے ہوئے چہرے کو دیکھتے احد نے سوز نہانی سے کہا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
"مشائم بیٹا کیا ہوا؟ یہ تمھارے پاوں پہ پلستر کیوں چڑھا ہے؟"۔    احد مشائم کو لے کر جونہی عامر صاحب کے گھر میں داخل ہوا عمارہ بیگم جو کچن کی طرف جا رہی تھیں' مشائم کو دیکھتے ہی مضطرب البال اس سمت آئیں۔
"ماما کچھ نہیں وہ بس گر گئی تھی"۔
"گر گئی مگر کیسے؟"۔
"ماما وہ  ۔۔۔۔۔۔"۔
"آنٹی مشائم نانو سے ملنے آئی تھی گھر پہ' سیڑھیاں اترتے ہوئے گر گئی اس وجہ سے میں مشی کو ڈاکٹر کے پاس لے گیا۔ گھبرانے والی بات نہیں ہے انشاءاللہ مشی جلدی ٹھیک ہو جائے گی"۔   احد نے مشائم کی بات کاٹتے کہا۔
"مشائم دھیان سے چلتے ہیں نا بیٹا"۔    عمارہ بیگم نے اسکا چہرہ ہاتھوں کی اوک میں لیا۔
"جی ماما آئیندہ دھیان رکھوں گی"۔    مشائم نے اثبات میں سر ہلایا۔
"احد مشائم کو اسکے روم میں لے آیا تھا' عمارہ بیگم بھی اسکے متعاقب میں تھیں۔
مشائم کو سہارا دیتے احد نے بیڈ پہ لٹایا۔
"اب تم آرام کرو"۔
"ٹھیک ہے آنٹی اب میں چلتا ہوں"۔     احد جونہی دروازے کی جانب گھوما مشائم نے اسکے دائیں ہاتھ پہ گرفت تنگ کی جس پہ وہ ایڑیوں کے بل مڑا۔
"جا رہے ہو؟"۔     مشائم کی آنکھ میں نمی امڈ آئی تھی۔
"مشو مجھے ایک بہت ضروری کام ہے اسکے لیئے میرا جانا ضروری ہے۔ جیسے ہی کام ختم ہوا میں تم سے ملنے آوں گا"۔    مشائم کے سامنے بیٹھتے احد کے اسکا چہرہ ہاتھوں کی اوک میں لیا۔
"اوکے"۔   مشائم نے معصومیت سی کہا۔
"ٹیک کیئر"۔    بیڈ سے اٹھتے احد دروازے کی طرف بڑھا۔
"یاد سے آنا"۔    مشائم نے آواز لگائی۔
"ضرور"۔    احد نے ہاتھ ہوا میں لہرایا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
اطراف میں سکوت کے دیپ جل رہے تھے' چوکھٹ پہ جوتوں کو اتارتے احد روم میں داخل ہوا جہاں ابتدائی قدم رکھتے ہی اگربتی کی مہک ہوا سے آمیزش اختیار کرتے احد کے نتھنوں سے آ لپٹی۔
یہ ایسا ٹھکانہ تھا جہاں اسے بغیر کسی ذہنی لغزش کے مکمل سکون نصیب ہوا تھا۔
متوسط عمر آدمی جو سفید لباس میں ملبوس تھا' قالین پہ رکھے کشن پہ بیٹھا ہاتھ میں تسبیح لیئے ثناخوانی میں مصروف تھا۔ سفید ریش' روشن چہرہ' آنکھیں ہنوز بھینچی ہوئی تھیں مانو عبادت میں غرق ہو۔ احد آہستگی سے چلتا اسکے قریب آ بیٹھا۔
کچھ لمحوں کی تاخیر سے بزرگ نے آنکھیں کھولیں۔
"اسلام و علیکم پیر صاحب"۔    احد نے پہل کی۔
"وعلیکم السلام' کہو بیٹا کیا مسئلہ ہے؟"۔   بزرگ نے شائستگی سے کہا۔
"پیر صاحب مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا ۔۔۔ میرے ساتھ گزشتہ دنوں سے عجیب عجیب ہو رہا ہے' کبھی گلاب ملتا ہے' کبھی آوازیں آتی ہیں' ایک روز نیند میں دیوار کے ساتھ بھی جا لگا تھا' کبھی گانوں کی آوازیں جو میں گاتا ہوں اکثر وہی' کبھی سفید لباس میں لڑکی نظر آتی ہے اور قریب جانے پہ غائب ہو جاتی ہے اور تو اور پیر صاحب مشائم سیڑھیوں سے گر گئی میرے حساب سے تو معمولی فریکچر ہونا چاہیئے تھا مگر پاوں کی ہڈی ٹوٹی ہے"۔      احد نے پس و پیش بات کا آغاز کیا۔
"بیٹا معاملہ سنگین لگ رہا ہے میں آپ کو ابھی کچھ نہیں بتا سکتا اسکے لیئے مجھے چلا کاٹنا ہوگا پھر ہی میں کچھ بتا سکتا ہوں' رات نو بجے آپ مجھے کال کر کے پوچھ لینا میں تب تک حساب کر لوں گا"۔     پیر صاحب نے سوچ بچار سے کہا۔
"ٹھیک ہے پیر صاحب بڑی مہربانی' میں چلتا ہوں خدا حافظ"۔    بولتے ہی احد اٹھ کھڑا ہوا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
احد جب روم کی دہلیز پہ آ کھڑا ہوا تو روم کی منتشر حالت دیکھ اسکے اوسان جاتے رہے' تمام اشیاء بکھری ہوئی تھیں۔ خوف کے مارے اسکا چہرہ پسینے سے نم ہو گیا تھا۔ بمشکل تھوک نگلتے احد لڑکھڑاتے قدموں سے روم میں داخل ہوا۔ 
ہر چیز کو بغور دیکھتے اسکے چہرے سے پسینہ ہنوز ٹپک رہا تھا' جونہی اسنے بیڈ کی حد پار کی اسے ایک دھکا سا لگا جس پہ وہ گرتے گرتے سنبھلا تھا۔ احد جھٹ سے مڑا' دونوں ہاتھ پشت پہ جکڑے جا چکے تھے جیسے کسی نے رسیوں سے باندھے ہوں' پنہاں رسیاں جنہیں ظاہری آنکھ دیکھنے سے قاصر تھی۔
"چھوڑو مجھے"۔    اسنے خود کو چھڑانے کی سعی کی۔
اس دم اسکی ٹانگوں میں بھی لوپ رسی ڈالی جا چکی تھی۔
"کیوں باندھا ہے مجھے چھوڑو"۔    احد حلق کے بل چلایا۔
احد کی چیخ و پکار صرف اسکے روم کی چار دیواری میں مقید تھی' وہ جتنا بھی چلائے اسکی آواز گھوم کر اسی کو سنائی دے رہی تھی۔
"منع کیا تھا میں نے تمھیں کہ کسی کو مت بتانا مگر تم نے میری ایک نہیں سنی"۔    غیبی آواز نے عتاب میں سر اٹھایا۔
"تو م م میں نے کسی کو کچھ نہیں بتایا"۔    احد ہکلا اٹھا تھا۔
اسکے حواس خمسہ جواب دینے لگے تھے۔
"جھوٹ"۔      ہوا کا تیز جھونکا اسکے چہرے کو چھوتا ہوا گزرا تھا۔
"جھوٹ بول رہے ہو تم۔ نو بجے بتانے والا ہے نا وہ بڈھا تمھیں' میں اسے بھی مار دوں گی"۔    غیبی قوت کا غصہ دگنا ہوا۔
اگلے ہی لمحے احد کا فون اپنے طور پہ اسکی جیب سے نکلا جسے دیکھتے احد کپکپانے لگا تھا۔
فون دیوار کے ساتھ پٹختے غیبی قوت وہاں سے چلی گئی تھی ساتھ ہی احد ان رسیوں کے غیبی شکنجے سے بھی آزاد ہوا تھا۔
احد کی حالت رو رو کر خستہ ہو گئی تھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
"آ رہا ہوں' ایک منٹ"۔    ڈور بیل بجی تو حمزہ روم سے نکلتا گیٹ کی جانب بڑھا۔
"ارے قمیل تم یہاں؟"۔    قمیل کو موجود دیکھ حمزہ دنگ رہ گیا۔
"ہاں وہ تم سے ایک بات کرنی تھی' بڑی مشقت کے بعد تمھارے گھر کا ایڈریس ملا ہے' اندر نہیں بلاو گے؟"۔   قمیل نے جواب دیتے کہا۔
"سوری دھیان میں نہیں رہا' اندر آو"۔    حمزہ نے سائیڈ پہ ہوتے اسے جگہ دی جس پہ وہ حمزہ کے ہم قدم گھر میں داخل ہوا۔
"بولو کیا لو گے؟ ٹھنڈا یا گرم؟"۔    ڈرائنگ روم میں داخل ہوتے ہی حمزہ نے کہا۔
"کچھ نہیں ابھی تم فلحال میرے ساتھ بیٹھو بات زیادہ ضروری ہے"۔    قمیل نے نشست سنبھالتے نفی کی۔
"کہو؟"۔    حمزہ بھی اسکے برابر تھوڑا فاصلے پہ بیٹھ گیا تھا۔
"یار میں چاہ رہا ہوں کہ ایک گیٹ ٹو گیدر رکھیں' تمام پرانے فرینڈز کا"۔   قمیل نے آغاز کیا۔
حمزہ کو قمیل کی بات کھٹکی تھی۔
"دیکھو قمیل میں نہیں آ سکتا میرے پاس اتنا ٹائم نہیں ہوتا"۔    حمزہ نے وقت کی مناسبت سے انکار کیا۔
"دیکھ حمزہ میں مانتا ہوں کہ میں کالج ٹائم میں تم لوگوں کے ساتھ بہت برا رہا ہوں' میرا ایمپریشن تم لوگوں کے ذہنوں پہ بہت برا ہے مگر میرا یقین کر میں بہت بدل گیا ہوں تلافی کرنا چاہتا ہوں اسی بہانے احد سے بھی معافی مانگنے کا موقع ملے گا"۔    قمیل نے بناوٹی خجالت سے کہا۔
"میں کوشش کروں گا"۔   حمزہ نے تنگ آ کر حامی بھری۔
"بہت شکریہ یار اور ہاں احد کو بھی لازمی کہنا بلکہ لے کر آنا"۔     اصرار کرتے وہ صوفے سے اٹھا۔
حمزہ نے اثبات میں سر ہلایا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
"مشائم یہ لو جوس پی لو اسکے بعد میڈیسن بھی لینی ہے"۔   ہاتھ میں جوس کا گلاس پکڑے زہرہ مشائم کے روم میں داخل ہوئی۔
"آپی میں بور ہو گئی ہوں میڈیسنز لے لے کر' اب نہیں لینی"۔     مشائم نے منہ کے زاویے بگاڑے۔
"ہاں کیوں نہیں میں ایسا کرتی ہوں کہ تمھیں میڈیسنز کی جگہ چاکلیٹس اور ٹافیز لا دیتی ہوں وہ کھا لینا اس سے آرام بھی آ جائے گا' ہے نا؟"۔    زہرہ نے تردید کی۔   " چلو اب جلدی کرو"۔   جوس کا گلاس مشائم کو تھماتے زہرہ نے سختی کی۔
"یہ میں کیا دیکھ رہا ہوں زہرہ آپی' آپ میری ایم یو سی ڈبلیو کو ڈانٹ رہی ہیں"۔    احد کی آواز عقب سے ابھری جو دروازے سے ٹیک لگائے بازو سینے کے گرد باندھے ہوئے تھا۔
احد کی آواز پہ زہرہ اسکی جانب گھومی' مشائم بھی احد کو دیکھتے مسکرا دی۔
"ایم یو سی ڈبلیو مطلب؟"۔    زہرہ متحیر ہوئی۔
"مائی اپ کمنگ وائف"۔    بازو پہلو میں کرتا احد اس طرف آیا۔
"میں اسے کیوں ڈانٹ رہی ہوں اگر تمھیں پتہ چلے تو تم بھی اسے ڈانٹو گے"۔    زہرہ نے شیخی سے بولتے مشائم کو گھورا۔
"ایسی کونسی وجہ ہے؟"۔    احد متحیر ہوا۔
"یہ میڈیسن نہیں لے رہی ۔۔ بول رہی ہے کہ بور ہو گئی ہوں"۔    زہرہ نے جلی پہ تیل ڈالنے کا کام کیا۔
"پھر میں چلتا ہوں"۔    ایموشنل بلیک میلنگ کے تحت احد مشائم کو گھوری سے نوازتے دروازے کی جانب گھوما۔
"ن ن نہیں احد میرے پاس رکو' بیٹھو' میں پکا میڈیسن لوں گی' ابھی ہی لوں گی' تمھاری قسم"۔    مشائم تلملا اٹھی تھی۔
شریر مسکراہٹ نے احد کے لبوں کا احاطہ کیا جسکی مدت چند لمحوں کی تھی۔
"تو پھر جلدی سے میڈیسن لو ۔۔ میں تبھی یہاں رکوں گا"۔     مشائم کی طرف پلٹتے احد نے حتمی فیصلہ سنایا پھر سائیڈ ٹیبل سے میڈیسن اٹھاتے مشائم کی طرف بڑھائی جسے اسنے برے دل سے احد کے ہاتھوں سے پکڑا اور بمشکل حلق سے اتارا۔
"لے لی' خوش؟"۔   جوس سے انصاف کرتے اسنے گلاس زہرہ کو پکڑا دیا۔
"احد میں تمھارے لیئے بھی کھانے کو کچھ لے آتی ہوں"۔    احد کو مخاطب کرتے زہرہ روم سے نکل گئی۔
"مشی یار ہر معاملے میں ضد نا کیا کرو اگر شادی کے بعد بھی ایسا کیا نا تو؟"۔    مشائم کے سامنے بیٹھتے اسنے دائیں آبرو قدرے اوپر کو کیا۔
"تو؟"۔    مشائم ہلکا سا احد کی طرف جھکی۔
"تو میں بھول جاوں گا کہ۔۔۔"۔   احد دانستہ باز رہا۔
"کہ؟"۔  
"کہ تمھاری ضد کو لے کر میں نے کبھی کچھ کہا تھا بلکہ ہر ضد پہ سر تسلیم خم کر دوں گا اور ہر خواہش پہ لبیک کہہ دیا کروں گا"۔     مشائم کی آنکھوں میں جھانکتے اسنے دل ستانی سے کہا۔
"اچھا یہ سب چھوڑو مجھے بتاو کہ تمھارا فون کیوں آف جا رہا ہے؟ میں کب سے ٹرائی کر رہی ہوں مگر تمھارا نمبر مسلسل بند جا رہا ہے"۔    خیال آتے ہی اسنے کہا۔
"نو بجے بتانے والا ہے نا وہ بڈھا تمھیں' میں اسے بھی مار دوں گی"۔     گزشتہ رات والا واقعہ یاد کرتے احد کے رونگٹے کھڑے ہوئے۔
"کچھ نہیں وہ فون گر کے ٹوٹ گیا ہے اس لیئے نمبر بند ہے' آج نیو لوں گا تو بات کروں گا"۔    احد نے بات کو صاف اڑاتے کہا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

   0
0 Comments